میرے لن کو پکڑ کر اپنے منہ کے قریب کر کےبولی۔۔۔۔ کچھ بھی ہو تم سے زیادہ تمہارا ۔۔یہ لوڑا بہت شاندار ہے۔۔۔۔۔اور پھر زبان نکال کر اس کے ٹوپے پر اپنی زبان پھیرنے لگیں
یلو دوستو کیسے ہو آپ ؟ دوستو یہ جو سٹوری میں آپ کو سنانے جا رہا ہوں ایک طویل عرصہ قبل میری یہ کہانی نیٹ پہ میں شائع ہو چکی ہے اس لیئے ایک لحاظ سے یہ کہانی نئی نہیں ہے لیکن اس کہانی کو دوبارہ سے اردو فانٹ میں لکھتے ہوئے میں نے اس میں بے شمار ترامیم و اضافے کیے ہیں یہاں تک کہ کہانی کا نام بھی تبدیل کر دیا ہے ۔ چنانچہ ان ترامیم و اضافوں کے بعد میں زیرِ نظر کہانی کے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ اس پرانی کہانی کا شرطیہ نیا پرنٹ ہے یا آج کل کی زبان میں کہہ سکتے ہو کہ یہ پرانی کہانی کا نیا ورژن ہے ۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔ اور جناب یہ تو آپ لوگوں کو پڑھ کے ہی پتہ چلے گا۔۔۔ کہ میں اپنی کاوش میں کس حد تک کامیاب ہوا ہوں ۔۔۔ میری گزارش بس اتنی ہی ہو گی کہ آپ کو یہ سٹوری جیسی بھی لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری اصلاح کے لیئے ا پنی رائے سے ضرور نوازیئے گا۔۔ شکریہ۔۔۔تو آیئے دوستو کہانی کی طرف چلتے ہیں ۔۔۔۔
دوستو یہ قصہ ہے واں کا جب آتش ابھی جواں ہو رہا تھا ۔۔۔۔ من میں ایک امنگ ۔۔۔ اور دل میں ترنگ تھی ۔۔ یہ سردیوں کے دن تھے اس دن موسم بڑا ہی شاندار تھا دھوپ نکلی ہوئی تھی اور میں اپنے گھر کی چھت پر کھڑا حسبِ معمول ادھر ادھر "جھاتیاں" مار رہا تھا لیکن اتفاق سے اس وقت آس پاس کوئی پری چہرہ نظر نہ آ رہا تھا۔۔۔ اور نہ ہی وہ بھی کہیں دکھائی دے رہی تھی کہ جس کے لیئے بندہ اتنی دیر سے کھڑا چھت پر سوکھ رہا تھا۔۔۔۔ جب مجھے اپنے چھت پر جھاتیاں مارتے ہوئے کافی دیر ہوگئی اور کسی مہ لقا معہ اپنی محبوبہ کا دیدار نصیب نہ ہوا ۔۔۔۔تو میں چھت کی چار دیواری سے ہٹ کر پاس پڑی چارپائی پر جا کر لیٹ گیا اور سوچنے لگا کہ اب کیا کیا جائے؟؟؟ کیونکہ اس وقت میرا دل بھونڈی کرنے کو چاہ رہا تھا ۔۔۔۔ تب اچانک ہی ایک خیال آیا کہ کیوں نہ کسی پارک کا چکر لگایا جائے ۔۔۔۔کہ وہاں دیدار ، یار نہ سہی ۔۔۔۔کسی اور حسینہ ماہ جبیناں کا دیدار ہو جائے گا ۔۔۔اور اگر اتفاق سے وہاں پر کسی گرم آنٹی سے مڈ بھیڑ ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو بھائی جی۔۔۔۔۔اپنے تو وارے نیا رے ہو جائیں گے اسی سوچ کا آنا تھا کہ میں جمپ مار کا اپنی چارپائی سے اُٹھا اور چھت سے سیدھا نیچے چلا گیا ۔۔اور پھر جلدی سے اپنی پھٹیچر بائیک کو باہر نکالا اور اسے سٹارت کرنے کے بعد ۔۔۔۔۔سوچنے لگا کہ کہاں جایا جائے؟ ایک خیال ایوب پارک کا آیا ۔۔۔ لیکن پتہ نہیں کیوں میرا اس طرف جانے کو من مائل نہیں ہوا ۔۔۔ چنانچہ دو تین پارکوں کے بارے سوچتے ہوئے اچانک میرے زہن میں شکرپڑیاں کا خیال آگیا۔۔۔۔ چنانچہ یہ فیصلہ کرتے ہی میں نے اپنے بائیک کو شکرپڑیاں کی طرف موڑ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ جب میں شکرپڑیاں پہنچا تو موسم کی رنگینی اپنے عروج پر تھی۔۔۔۔ ہر طرف سرما کی فرحت بخش دھوپ چھائی ہوئی تھی اور اس پہ طرہ شکرپڑیاں آئے ہوئے حسین لوگ ۔۔واؤؤؤؤؤؤؤؤ۔۔۔ یہ سب مل جل کر موسم کو رنگین سے رنگین تر بنا رہے تھے۔۔ بچے ایک دوسرے کے ساتھ اٹھیلیاں کر رہے تھے اور بڑے ان کو دیکھ کر انجوائے کر رہے تھے ۔۔۔ اور ہم جیسے ٹھرکی ان کے ساتھ آئی ہوئی لیڈیز کو تاڑ رہے تھے ۔ میں بھی وہاں کافی دیر تک کھڑا اس ہجوم میں کچھ " تلاش" کرتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک دو آنٹیاں نظر آئی بھی ۔۔ جن کے کھڈ رات بتا رہے تھے کہ یہ عظیم عمارت مطلوبہ سہولت مہیا کرنے کی پوری پوری صلاحیت رکھتی ہے ۔۔۔۔۔ لیکن شایدفیملی کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ۔۔۔۔ انہوں نے۔۔۔ میری شہوت بھری نظروں کا جواب اپنی شہوت بھری نظروں سے تو ضرور دیا ۔ ۔۔۔۔۔لیکن اس کے علاوہ انہوں نے اس ۔۔۔ بندہء مسکین کو اور کوئی خاص لفٹ نہیں کروائی ۔۔۔ میں بھی ان کی مجبوری کو سمجھ گیا ۔۔۔۔۔اور پھر ۔۔۔خود کو انگور کھٹے ہیں کہہ کر ان کی طرف دیکھنا بند کر دیا ۔۔۔۔۔ چنانچہ ان خواتین کی طرف سے مایوس ہونے کے بعد میں نے سوچا ۔۔۔شاہ جی اٹھو اب کوچ کرو۔۔۔۔پھر سوچا کہ اب جبکہ یہاں آیا ہی گیا ہوں تو کیوں نہ تھوڑی سی واک ہی کر لی جائے ۔۔۔۔ چنانچہ اس خیال کے آتے ہی میں شکر پڑیاں سے نیچے اترا اور کنول جھیل کی طرف چلا گیا ۔۔۔۔ اور پھر وہاں سے ہوتا ہوا کنول جھیل کے اوپر کی طرف بنے ہوئے علاقے کی طرف چلا گیا ۔۔ یہاں تک کہ واک کرتے ہوئے میں کافی آگے تک بڑھ گیا۔۔۔۔ اتنی آگے جا کر سوچا کہ چلو اب واپس چلتے ہیں ۔۔۔ پھر خیال آیا کہ تھوڑا آگے سے مُڑ جاؤں گا۔۔۔۔۔اور چلنے لگا ۔۔۔ میں نے ابھی وہاں سے دو تین قدم ہی آگے بڑھائے تھے کہ ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچانک مجھے پاس کی جھاڑیوں میں سے ایک عجیب سی سرسراہٹ کی آواز سنائی دی۔۔۔ میں نے ایک لمحہ اس پر غور کیا اور پھر سر جھٹک کر چلنے لگا۔۔ ابھی میں نے ایک قدم آگے ہی بڑھایا تھا کہ ۔۔۔ اس سرسراہٹ کی آواز تھوڑی اور بڑھ گئی ۔۔۔ ۔ یہ تیز قسم کی سرسراہٹ سن کر میں وہیں رُک گیا ۔۔۔۔۔۔۔ اور پہلے تو یہ سوچ کر ڈر سا گیا کہ کہیں یہ سرسراہٹ کسی سانپ کی تو نہیں؟۔۔۔۔ لیکن پھر جیسے ہی میرے کانوں نے سرسراہٹ کے ساتھ ساتھ ایک مستی بھری نسوانی سرگوشی سنُی ۔۔۔۔۔اُوں ہُوں ۔۔۔ نہ کرو ناں۔۔۔۔ تو میرے کان کھڑے ہو گئے ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میں نے جس طرف سے وہ نسوانی آواز آ رہی تھی اس طرف دیکھا۔۔ تو سامنے ایک بڑی سی جھاڑی کھڑی تھی میں نے غور کیا تو اس بڑی سی جھاڑی کے آس پاس چھوٹے چھوٹے بہت سے خود رو درخت بھی اُگے ہوئے تھے ۔۔۔اور ان درختوں کی وجہ سے وہاں ایک قدرتی طور پر ایک اوٹ سی بن گئی تھی اور اسی اوٹ کے پیچھے سے وہ نسوانی آواز آ رہی تھی ۔۔ اور یہ سوچ کر کہ اس جھاڑی کے پیچھے دو جوان جسم موج مستی کر رہے ہیں ۔۔۔۔ میں ایک دم پرجوش سا ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی بڑی احتیاط سے اس جھاڑی کی طرف بڑھنا شروع ہو گیا۔۔۔ ۔۔۔ میں پھونک پھونک کر قدم اُٹھاتا ہوا وہاں تک جا پہنچا اور ۔۔۔ وہاں پہنچ کر میں ایک دم زمین پر بیٹھ گیا۔ ۔۔۔اور پھر ایک مناسب جگہ دیکھ کر وہاں پر سر اُٹھا کر دیکھنے لگا ۔۔۔۔ جھاڑی کے اس طرف کا نظارہ بہت ہی دلکش اور گرم تھا -
اس وقت میرے سامنے ایک نیم برہنہ لڑکا اور ایک نیم برہنہ لڑکی داد ِ عیش دے رہے تھے ۔۔ لڑکے کی عمر 29 تیس سال ہو گی ۔اس کا جسم کافی کسرتی تھا ۔۔۔اور اس نے اپنے کسرتی جسم پر جین کی نیلی پینٹ اور اوپر سفید شرٹ پہن رکھی تھی اور اس شرٹ کے اوپر اس نے آدھے بازوؤں کی سوئیٹر بھی پہنی ہوئی تھی اس مرد نے اتنی ٹائیٹ شرٹ پہنی ہوئی تھی کہ اس شرٹ سے اس کے بازوؤں کی مچھلیاں پھڑک رہی تھیں ۔۔۔ مرد کی پینٹ کی زپ کھلی ہوئی تھی اور اس نے اپنا لن لڑکی کے ہاتھ میں پکڑایا ہوا تھا۔۔۔ جسے وہ بڑے پیار سے آگے پیچھے کر رہی تھی۔۔۔ چونکہ دونوں کا میرے طرف سائیڈ پوز تھا اس لیئے میں اس لڑکے اور لڑکی کا چہرہ اچھی طرح سے نہ دیکھ سکتا تھا۔۔۔ ادھر پاس زمین پر لڑکی کا جہازی سائز پرس پڑا تھا اور اس پرس کے اوپر اس کی سفید رنگ کی بڑی سی چادر بھی رکھی تھی لڑکی نے اپنی قمیض پر کالے رنگ کی سؤئیٹر بھی پہنی ہوئی تھی جس کے آگے سے سارے بٹن کھلے ہوئے تھے اس کی قمیض سے اس کی بھاری چھاتیاں باہر کو نکلی ہوئیں تھیں ۔۔۔ اور ان ننگی چھاتیوں پر وہ مرد جھکا ہوا تھا اور اس کے ہاتھ میں لڑکی کے ممے تھے جسے وہ دباتا تو لڑکی ایک سیکسی سی آہ بھر کر کہتی کہ .. اُف ۔۔آہستہ میری جان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لڑکی کی چھاتیوں سے ہوتی ہوئی میری نگاہ نیچے پڑی تو میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا ۔۔۔ بات کچھ یوں تھی کہ اکڑوں بیٹھی ہوئی لڑکی نے اپنی قمیض کو مٹی سے بچانے کے لیئے اسے پیچھے سےکافی حد تک اوپر اُٹھا یا ہوا تھا جس سے اس کی گانڈ صاف نظر آرہی تھی اوپر سے غضب یہ تھا کہ قمیض کے نیچے اس لڑکی نے چوڑی دار پاجامہ پہنا ہوا تھا ۔۔ اور یہ چُست پاجامہ اس کی موٹی سی گانڈ کے بلکل ساتھ چپکا ہوا تھا۔۔کہ جس کی وجہ سے اس لڑکی کی گانڈ کا ایک ایک انگ بڑا ہی نمایاں نظر آ رہا تھا۔۔۔واہ۔۔۔ کیا شاندار گانڈ تھی ۔۔۔ اس لڑکی کی اتنی مست گانڈ دیکھ کر میں تو اس لڑکی پر بن دیکھے ہزار جان سے فدا ہو گیا۔۔۔۔ ۔۔۔ اور اتنی مست گانڈ دیکھ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فوراً ہی میرے لن نے جان پکڑنا شروع کر دی۔۔۔
جبکہ دوسری طرف صورتِ حال یہ تھی کہ وہ مرد اکڑوں بیٹھی لڑکی سے اپنا لن منہ میں لینے کو کہہ رہا تھا ۔۔۔ اور لڑکی کے انداز سے صاف نظر آرہا تھا کہ وہ بھی مرد کا لن چوسنا چاہتی ہے لیکن جیسا کہ ہماری دیسی کڑیوں کی عادت ہے کہ دل ہونے کے باوجو د بھی ۔۔ ایسی ہی جعلی نخرے کرنا ۔۔۔۔ سو وہ یہی کر رہی تھی ۔۔۔۔۔چنانچہ جب وہ لڑکا اس سے کہتا کہ پلیززززززز تھوڑا سا تو منہ میں لو ناں۔۔۔۔تو لڑکی مست اور سریلی آواز میں کہتی کہ نا بابا مجھ سے یہ گندہ کام نہیں ہو گا ۔۔۔۔ تمہارا ہاتھ میں پکڑ لیا یہ کافی نہیں ہےکیا؟؟؟؟؟۔۔۔۔ تو آگے سے وہ لڑکا کہتا ۔۔۔۔۔ جان چوسنا نہیں تو پلیزززززززز۔۔ اس پر ایک کس ہی کر دو۔۔۔۔ اس پر لڑکی بڑی ادا سے بولی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوچ لو میں جسٹ کس ہی کروں گی۔۔۔۔۔یہ کہتی ہوئے لڑکی نے ایک ادا سے اپنی گانڈ کو پیچھے سے اُٹھایا ۔۔۔۔اور اپنے منہ کو آگے کیا اور لڑکے کی طرف دیکھتے ہوئے منہ کو اس کے لن کی طرف لے گئی ۔۔۔گانڈ اوپر اٹھانے سے ۔۔۔۔۔ اس کی گانڈ کے دونوں پٹ یہاں تک کہ اس کی موٹی گانڈ کے دونوں ۔۔۔ حصوں کے درمیان کی لکیر بھی نمایاں طور پر نظر آنے لگی -اُف ایک تو لڑکی کی موٹی گانڈ ۔۔دوسرا اس موٹی گانڈ کو دو حصوں میں بانٹتی ہوئی گہری سی لکیر ۔۔۔۔ یہ سب دیکھ کر میں تو جھلا ہو گیا ۔۔۔اور اس دل کش نظارے کو مزی د نزدیک سے دیکھنے کے لیئے بے اختیار اپنی جگہ سے تھوڑا آگے کو بڑھ گیا ۔۔۔ میرے آگے بڑھنے سے زمین پر پڑے ہوئے خشک پتوں سے ایک چرچراہٹ کی سی آواز پیدا ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بد قسمتی سے اس سناٹے میں یہ آواز اس قدر تیزی کے ساتھ ابھری کہ ۔۔۔اس آواز کو سنتے ہی ۔۔۔ وہ دونوں ایک دم اپنی جگہ سے اچھلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب پوزیشن یہ بنی تھی کہ اس کی گانڈ کو نذدیک سے دیکھنے کے چکر میں ۔۔۔ میں ان کے سامنے نمایاں طور پر کھڑا نظر آ رہا تھا۔۔ ۔۔۔ ادھر جیسے ہی لڑکی نے۔۔۔۔ گردن گھما کر میری طرف ۔۔۔اور میں نے اس کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو ایک دوسرے کو دیکھ کر ۔۔۔۔ہم دونوں ہی ششدر رہ گئے۔۔۔۔ وہ ۔۔۔وہ۔۔۔ ہماری محلے دار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تھی جسے نہ صرف یہ کہ میں اچھی طرح سے جانتا تھا بلکہ ہمارے ان کے ساتھ گھریلو مراسم بھی تھے۔۔۔ مجھے دیکھ کر وہ لڑکی جس کا نام آصفہ تھا اور جسے میں آصفہ باجی کہتا تھا ۔۔۔۔۔ ایسے ہو گئی تھی کہ جیسے کاٹو تو لہو نہیں۔۔وہ بڑی ہی خوف ذدہ نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی جبکہ دوسری طرف میں ۔۔۔ بس خالی خالی نظروں سے بڑی ہی غیر یقنی حالت میں اسے گھورے جا رہا تھا۔ دراصل میرے زہن کے کسی بعید ترین گوشے میں بھی اس لڑکی کے بارے میں ایسا کوئی تصور موجود نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ اس کی فیملی کے لوگ بہت پرہیز گار اور مزہبی ٹائپ کے تھے اور خود وہ لڑکی بھی محلے سے نکلتے وقت خود کو ایک بڑی سی چادر سے ڈھکا رکھتی تھی ۔ اور محلے میں اس نے کبھی کسی کو سر اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔ اسی لیئے آصفہ باجی کو اس حالت میں دیکھ کر میں حیران پریشان ہو گیا تھا۔۔۔کیونکہ میرے لیئے ا ن کی یہ حرکت بڑی ہی غیر متوقع اور حیرت انگیز تھی۔۔ میں قسم کھا کے کہتا ہوں کہ میری جگہ ہمارے محلے کا کوئی اور لڑکا اس لڑکی کے بارے میں مجھ سے اس قسم کی بات کرتا تو ہو سکتا ہے کہ جواب میں میں اس کے دانت توڑ دیتا۔۔۔۔۔ لیکن بدقسمتی سے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے مجھے بڑا زبردست شاک لگا تھا اور میں اسی شاک کے زیرِ اثر۔۔۔میں اس کو یک ٹک دیکھے جا رہا تھا ۔۔۔۔ میرے برعکس آصفہ باجی جلد ہی صدمے سے باہر نکل آئی اور اس نے جلدی سی اپنی بھاری چھاتیوں کو قمیض کے اندر کیا اور پرس اور چادر اُٹھا کر لڑکا کا ہاتھ پکڑا ۔۔۔اور تقریباً بھاگتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔۔۔
ان کو بھاگتے دیکھ کر ۔۔۔ میں بھی شاک کی حالت سے باہر نکل آیا ۔۔۔۔اور بڑے بوجھل قدموں کے ساتھ واپس چلا گیا اور لوک ورثہ کے ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر آج کے واقعہ کے بارے میں سوچنے لگا ۔۔۔ جو کچھ میری نظروں نے دیکھا تھا ۔۔۔ میرا دل ابھی تک اسے ماننے کو تیار نہیں تھا سوچتے سوچتے خیال آیا کہ اس میں اتنا حیران ہونے کی کیا بات ہے؟؟ بے شک آصفہ باجی کا تعلق ایک مزہبی اور روایتی فیملی سے ہے ۔۔۔۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک جوان لڑکی بھی تو ہے جس کی عمر بیتی جا رہی تھی اور اس کے گھر والے ابھی تک اس کے لیئے کسی نیک اور صالع لڑکے کی تلاش میں تھے جبکہ میرے اندازے کے مطابق اس وقت آصفہ باجی کی عمر ستائیس اٹھائیس سال ہو گی ۔۔۔ یعنی کہ وہ ایک بھر پور جوان لڑکی تھی اور اگر وہ جوانی کے ہاتھوں مجبور ہوکر تھوڑا بہک گئی تھی تو اس میں اچھنبے کی کیا بات تھی؟ اس کے بھی جزبات ہوں گے اس کو بھی ہوشیاری آتی ہوگی۔۔۔ ۔۔۔۔اور ویسے بھی ۔۔ ہم کون سے ایسے فرشتہ صفت بندے تھے کہ اس کی بات کو اچھالیں؟؟؟ ۔۔خود ہمارا حال یہ تھا کہ محلہ کیا آس پاس کی کوئی بھی ڈھیلی ۔۔۔ آنٹی ہمارے لن کی دسترس سے محفوظ نہ تھی۔۔۔۔ چنانچہ یہ سوچ کر میں نے دل ہی دل میں یہ طے کر لیا کہ آصفہ باجی کے بارے میں آج میں نے جو کچھ بھی دیکھا اور سنا ہے وہ اسی ریسٹورنٹ میں دفن کر دیتا ہوں ۔۔۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد ۔۔۔ میں نے خود کو کافی ہلکا پھلکا محسوس کیا ۔۔۔۔ اس کے بعد میں وہاں سے اُٹھا اور اپنے دوستوں کی طرف چلا گیا۔۔۔۔ اور کافی دیر سے گھر پہنچا۔۔۔
جیسے ہی میں گھر میں داخل ہوا تو امی مجھ سے کہنے لگیں کہ آصفہ کافی دیر سے تمہارا پوچھ رہی تھی اور تم سے ملنے کے لیئے اس نے ہمارے گھر کے کافی چکر بھی کاٹے ہیں اور آخری دفعہ جاتے ہوئے اس نے امی کو یہ پیغام دیا تھا کہ جیسے ہی میں گھر آؤں اس کی بات ضرور سنوں ۔۔آصفہ باجی کا پیغام سن کر میں ساری بات سمجھ گیا تھا لیکن ویسے ہی مچلا بنتے ہوئے امی سے بولا۔۔۔۔ کہ امی خیریت تو ہے نا ؟ ان کو مجھ سے ایسا کیا کام پڑ گیا ہے ؟ تو امی کہنے لگی کام کا تو مجھے پتہ نہیں ۔۔۔۔۔ البتہ شکل سے وہ بے چاری کافی پریشان لگ رہی تھی ۔۔۔۔پھر کہنے لگیں بیٹا جلدی سے جا کر اس سے مل آ ۔۔۔کہ پہلے ہی وہ ہمارے گھر کے کافی چکر لگا چکی ہے۔امی کی بات سن کر میں آصفہ باجی کے گھر کی طرف چل پڑا ۔۔۔ اور جا کر ان کے گھر کی گھنٹی بجائی تو جواب میں انہوں نے ہی دروازہ کھولا ۔۔۔ اس وقت وہ خاصی پریشان اور دہشت زدہ سی لگ رہیں تھیں ۔۔ مجھے اپنے سامنے پا کر انہوں نے مجھے سیڑھیوں کی طرف جانے کا اشارہ کیا جو کہ ان کے دروازے کے ساتھ ہی بنی ہوئیں تھیں۔۔۔۔اور پھر جیسے ہی میں سیڑھیاں چڑھتا ہوا ۔۔۔۔ان کی ممٹی پر پہنچا ۔۔۔ تو پیچھے سے آواز دے کر انہوں نے مجھے وہیں رکنے کا کہا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔ اور جیسے ہی میں رکا ۔۔۔۔وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھ کر میرے سامنے آ کر کھڑی ہو گئیں۔۔۔ ۔۔ اور پھر میرے سامنے رُکتے ہی انہوں نے اپنا سر جھکا لیا اور اس کے ساتھ ہی اپنی آنکھیں پونچھنے لگیں ۔۔مجھے دیکھتے ہی وہ رونا شروع ہو گئیں تھیں انہیں روتا دیکھ کر میں بھی پریشان ہو گیا اور اسی پریشانی کے عالم میں ان سے کہا۔۔ کیا ہوا باجی ؟ میری بات سن کر انہوں نے کچھ جواب نہ دیا ۔۔۔ پھر میرے بار بار پوچھنے پر انہوں نے بس اتنا ہی کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آئی ایم سوری شاہ !!!!!!!!۔۔۔۔۔اور پھر سے رونے لگیں ۔۔۔اس پر میں نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے ان سے کہا ۔۔۔۔ سوری؟؟؟؟؟؟ پر کس بات کی؟ آپ نے ایسا کیا کیا ہے؟ جو مجھ سے سوری بول رہی ہو۔۔۔۔ تو وہ آنسو پونجھتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں سوری دوپہر والے واقعہ پر مانگ رہی ہوں ۔۔۔۔ اس پر میں نے ہنستے ہوئے بولا ۔۔۔ لو کر لو گل ۔۔۔۔اس میں سوری کی کیا بات ہے باجی ؟ ۔۔۔ بلکہ سوری تو مجھے بولنا چاہیئے کہ میں نے آپ لوگوں کے رنگ میں بھنگ ڈال دی تھی۔۔ میری بات سن کر انہوں نے ایک دم سے اپنا سر اُٹھایا اور میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگیں ؟ تت ۔۔۔تم سچ کہہ رہے ہو؟ تو میں نے ان کے سر پر ہاتھ رکھ کر بڑے ہی سنجیدہ لہجے میں کہا ۔۔۔۔۔۔آپ کی قسم ۔۔۔ میں بلکل سچ کہہ رہا ہوں !!!!۔۔۔ میری بات سن کر انہوں نے ایک بار پھر بڑی بے یقنی سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگیں ۔۔۔۔۔ تم ۔۔۔تم جو کہہ رہے ہو ۔۔۔دل سے کہہ رہے ہو ناں ۔۔۔اس پر میں نے ان سے کہا جی دل سے کہہ رہا ہوں ۔۔۔۔اور اس میں حیرانی کی کیا بات ہے؟؟ ۔۔ پھر ان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔زیادہ حیران نہ ہوں باجی ۔۔۔۔ ۔۔۔ آپ بھی میری طرح سے ایک جیتی جاگتی انسان ہو کوئی لکڑ کی مورت تو نہیں ۔۔۔اس لیئے آپ کو بھی اپنی مرضی سے زندگی گزارنے اتنا ہی حق ہے جتنا کہ کسی ا ور کو ہے۔۔۔ میری بات سن کر ان کی آنکھوں میں تشکر بھرے جزبات آ گئے اور وہ رندھی ہوئی آواز میں کہنے لگیں اگر تم اس کی بجائے کوئی اور بات کرتے تو آج میں نے خود کشی کر لینی تھی۔۔۔ اس پر میں ہنستے ہوئے کہا مریں آپ کے دشمن ۔۔۔۔بھلا اس میں خود کشی کی کیا بات تھی ؟ ۔۔۔ تو وہ ایک دم سیریس ہو کر بولیں ۔۔ تھی نا ۔۔ لیکن تم نہیں سمجھو گے ۔۔ پھر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولیں۔۔۔۔۔ وعدہ کرو کہ تم اس واقعہ کا کسی سے بھی تزکرہ نہیں کرو گے؟ تو میں نے خلوصِ دل سے کہا کہ باجی میرا آپ کے ساتھ پکا وعدہ ہے کہ آج کے بعد میں اس بات کا اپنے آپ سے بھی تزکرہ نہیں کرو ں گا میری بات سن کر انہوں نے اطمینان کی ایک گہری سانس لی ۔۔
جب وہ میری طرف سے پوری طرح مطمئن ہو گئیں ۔۔۔تو پھر میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔باجی کیا میں آپ سے ایک پوچھ سکتا ہوں نا؟ تو وہ اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوئے کہنے لگیں۔۔ ۔۔ ہاں بولو ۔۔تو میں نے ان سے کہا کہ کون تھا وہ لکی ؟؟ کم از کم ہمارے محلے کا تو ہر گز نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ تھوڑی سی ہچکچاہٹ سے بولیں اس کا نام جاوید ہے اور وہ میری پہلی محبت ہے۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ مجھ سے کہنے لگیں۔۔ ۔۔۔۔ اس کے بارے میں تمہیں باقی باتیں پھر کبھی بتاؤں گی کہ اس وقت ابا جی کے آنے کا ٹائم ہو گیا ہے ۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے مجھے جانے کا اشارہ کیا۔۔۔ ۔۔۔ چنانچہ ان کا اشارہ دیکھتے ہی میں سیدھا وہاں سے اپنے گھر آ گیا۔۔۔
پھر یوں ہوا کہ اس دن کے بعد میری ان کے ساتھ دوستی ہو گئی اور ہاں بعد میں انہوں نے میرے پوچھنے پر اپنے محبوب کے بارے میں بتلایا کہ ۔۔۔وہ ان کے کالج کے دنوں کا دوست تھا اور بقول ان کے ۔۔۔ وہ ان سے شدید محبت کرتا ہے اور ان کے ساتھ شادی کرنا چاہتا تھا۔اور اب ان کی چاہت بہت آگے تک بڑھ چکی تھی ۔ یہ ساری تفصیل پوچھنے کے بعد میں نے ان سے پوچھا تھا کہ کیا اس سے شادی کے لیئے آپ کے والدین مان جائیں گے؟ کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ اس معاملے میں خصوصاً ان کے والد بہت ہی سخت تھے ۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ کہنے لگیں ۔۔۔۔ کوشش تو یہی ہے کہ وہ لوگ مان جائیں ۔۔اور پھر کہنے لگیں اس سلسلہ میں انہوں نے اپنی خالہ کے زریعے بات چیت کا ڈول بھی ڈالا تھا ۔۔۔۔۔ لیکن تا حال کوئی خاص کامیابی نہ ہوئی تھی۔۔۔ میں اکثر ہی ان کے گھر جایا کرتا تھا لیکن اس واقعہ کے بعد تو میرا ان کے گھر اور ان کا ہمارے گھر آنا جانا کچھ زیادہ ہی گیا تھا ۔۔۔۔۔ اس کی واحد وجہ یہ تھی ۔۔۔۔۔۔۔آپ سمجھ تو گئے ہوں گے۔۔۔۔۔ اس واقعہ کے بعد وہ اپنے دل کی ساری باتیں مجھ سے شئیر کر لیتی تھیں ۔۔۔۔ اسی لیئے تھوڑے دنوں میں ہی ہماری دوستی اور بھی گہری ہو گئی تھی ۔۔ایک دن میں ان کے گھر گیا تو وہ بڑی تیار شیار ہو کر گھر سے نکلنے ہی والی تھیں ان کی تیاری دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ آج پھر جاوید سے ملنے کا پروگرام ہے لیکن محض مزہ لینے کے لیئے میں ان سے بولا ۔۔۔۔ لگتا ہے باجی آج پھر جاوید بھائی پر بجلیاں گرانے جا رہی ہو ۔۔۔ میری بات سن کر ان کے چہرے پرحیا کی ایک لالگی سی پھیل گئی اور وہ شرماتے ہوئے بولیں ۔۔۔ہاں اس نے بلایا ہے ۔۔۔اس پر میں نے شرارت بھری نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ آپ چلو میں بھی انہی درختوں کے جھنڈ کی طرف آ رہا ہوں ۔۔۔ میری بات سن کر پہلے تو وہ شرم سے لال ہو گئیں ۔۔۔۔۔ پھر انہوں نے اپنے ایک ہاتھ کا مکا بنایا اور مجھ پر تانتے ہوئے مصنوعی غصے کا اظہار کرتے سے بولیں۔۔۔ تمہاری جان نہ نکال دوں گی اگر تم وہاں نظر بھی آئے تو۔۔۔۔۔ اور ساتھ ہی مسکراتے ہوئے باہر نکل گئیں۔۔۔ جبکہ میں اندر ان کے گھر چلا گیا اور ان کی امی سے تھوڑی دیر گپ شپ لگانے کے بعد واپس آگیا۔۔۔
اگلے دن وہ ہمارے گھر آئیں تو بڑی خوش لگ رہیں تھیں انہیں خوش دیکھ کر میں نے شرارت سے کہا ۔۔۔۔ لگتا ہے کل کی ڈیٹ کافی کامیاب رہی ؟ میری بات سن کر ان کا چہرہ لال ہو گیا ۔۔۔ لیکن منہ سے کچھ نہ بولیں ۔۔۔ پھر میرے بار بار چھیڑنے پر بس اتنا ہی کہا ۔۔۔۔ چل ہٹ بدمعاش بہنوں سے ایسی باتیں نہیں پوچھتے ۔۔ ۔۔۔اور مسکرا دیں۔۔۔ ۔۔۔۔ اور پھر میرے ساتھ ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگیں۔۔
agey Next Part Me
دوستو یہ قصہ ہے واں کا جب آتش ابھی جواں ہو رہا تھا ۔۔۔۔ من میں ایک امنگ ۔۔۔ اور دل میں ترنگ تھی ۔۔ یہ سردیوں کے دن تھے اس دن موسم بڑا ہی شاندار تھا دھوپ نکلی ہوئی تھی اور میں اپنے گھر کی چھت پر کھڑا حسبِ معمول ادھر ادھر "جھاتیاں" مار رہا تھا لیکن اتفاق سے اس وقت آس پاس کوئی پری چہرہ نظر نہ آ رہا تھا۔۔۔ اور نہ ہی وہ بھی کہیں دکھائی دے رہی تھی کہ جس کے لیئے بندہ اتنی دیر سے کھڑا چھت پر سوکھ رہا تھا۔۔۔۔ جب مجھے اپنے چھت پر جھاتیاں مارتے ہوئے کافی دیر ہوگئی اور کسی مہ لقا معہ اپنی محبوبہ کا دیدار نصیب نہ ہوا ۔۔۔۔تو میں چھت کی چار دیواری سے ہٹ کر پاس پڑی چارپائی پر جا کر لیٹ گیا اور سوچنے لگا کہ اب کیا کیا جائے؟؟؟ کیونکہ اس وقت میرا دل بھونڈی کرنے کو چاہ رہا تھا ۔۔۔۔ تب اچانک ہی ایک خیال آیا کہ کیوں نہ کسی پارک کا چکر لگایا جائے ۔۔۔۔کہ وہاں دیدار ، یار نہ سہی ۔۔۔۔کسی اور حسینہ ماہ جبیناں کا دیدار ہو جائے گا ۔۔۔اور اگر اتفاق سے وہاں پر کسی گرم آنٹی سے مڈ بھیڑ ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو بھائی جی۔۔۔۔۔اپنے تو وارے نیا رے ہو جائیں گے اسی سوچ کا آنا تھا کہ میں جمپ مار کا اپنی چارپائی سے اُٹھا اور چھت سے سیدھا نیچے چلا گیا ۔۔اور پھر جلدی سے اپنی پھٹیچر بائیک کو باہر نکالا اور اسے سٹارت کرنے کے بعد ۔۔۔۔۔سوچنے لگا کہ کہاں جایا جائے؟ ایک خیال ایوب پارک کا آیا ۔۔۔ لیکن پتہ نہیں کیوں میرا اس طرف جانے کو من مائل نہیں ہوا ۔۔۔ چنانچہ دو تین پارکوں کے بارے سوچتے ہوئے اچانک میرے زہن میں شکرپڑیاں کا خیال آگیا۔۔۔۔ چنانچہ یہ فیصلہ کرتے ہی میں نے اپنے بائیک کو شکرپڑیاں کی طرف موڑ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ جب میں شکرپڑیاں پہنچا تو موسم کی رنگینی اپنے عروج پر تھی۔۔۔۔ ہر طرف سرما کی فرحت بخش دھوپ چھائی ہوئی تھی اور اس پہ طرہ شکرپڑیاں آئے ہوئے حسین لوگ ۔۔واؤؤؤؤؤؤؤؤ۔۔۔ یہ سب مل جل کر موسم کو رنگین سے رنگین تر بنا رہے تھے۔۔ بچے ایک دوسرے کے ساتھ اٹھیلیاں کر رہے تھے اور بڑے ان کو دیکھ کر انجوائے کر رہے تھے ۔۔۔ اور ہم جیسے ٹھرکی ان کے ساتھ آئی ہوئی لیڈیز کو تاڑ رہے تھے ۔ میں بھی وہاں کافی دیر تک کھڑا اس ہجوم میں کچھ " تلاش" کرتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک دو آنٹیاں نظر آئی بھی ۔۔ جن کے کھڈ رات بتا رہے تھے کہ یہ عظیم عمارت مطلوبہ سہولت مہیا کرنے کی پوری پوری صلاحیت رکھتی ہے ۔۔۔۔۔ لیکن شایدفیملی کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ۔۔۔۔ انہوں نے۔۔۔ میری شہوت بھری نظروں کا جواب اپنی شہوت بھری نظروں سے تو ضرور دیا ۔ ۔۔۔۔۔لیکن اس کے علاوہ انہوں نے اس ۔۔۔ بندہء مسکین کو اور کوئی خاص لفٹ نہیں کروائی ۔۔۔ میں بھی ان کی مجبوری کو سمجھ گیا ۔۔۔۔۔اور پھر ۔۔۔خود کو انگور کھٹے ہیں کہہ کر ان کی طرف دیکھنا بند کر دیا ۔۔۔۔۔ چنانچہ ان خواتین کی طرف سے مایوس ہونے کے بعد میں نے سوچا ۔۔۔شاہ جی اٹھو اب کوچ کرو۔۔۔۔پھر سوچا کہ اب جبکہ یہاں آیا ہی گیا ہوں تو کیوں نہ تھوڑی سی واک ہی کر لی جائے ۔۔۔۔ چنانچہ اس خیال کے آتے ہی میں شکر پڑیاں سے نیچے اترا اور کنول جھیل کی طرف چلا گیا ۔۔۔۔ اور پھر وہاں سے ہوتا ہوا کنول جھیل کے اوپر کی طرف بنے ہوئے علاقے کی طرف چلا گیا ۔۔ یہاں تک کہ واک کرتے ہوئے میں کافی آگے تک بڑھ گیا۔۔۔۔ اتنی آگے جا کر سوچا کہ چلو اب واپس چلتے ہیں ۔۔۔ پھر خیال آیا کہ تھوڑا آگے سے مُڑ جاؤں گا۔۔۔۔۔اور چلنے لگا ۔۔۔ میں نے ابھی وہاں سے دو تین قدم ہی آگے بڑھائے تھے کہ ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچانک مجھے پاس کی جھاڑیوں میں سے ایک عجیب سی سرسراہٹ کی آواز سنائی دی۔۔۔ میں نے ایک لمحہ اس پر غور کیا اور پھر سر جھٹک کر چلنے لگا۔۔ ابھی میں نے ایک قدم آگے ہی بڑھایا تھا کہ ۔۔۔ اس سرسراہٹ کی آواز تھوڑی اور بڑھ گئی ۔۔۔ ۔ یہ تیز قسم کی سرسراہٹ سن کر میں وہیں رُک گیا ۔۔۔۔۔۔۔ اور پہلے تو یہ سوچ کر ڈر سا گیا کہ کہیں یہ سرسراہٹ کسی سانپ کی تو نہیں؟۔۔۔۔ لیکن پھر جیسے ہی میرے کانوں نے سرسراہٹ کے ساتھ ساتھ ایک مستی بھری نسوانی سرگوشی سنُی ۔۔۔۔۔اُوں ہُوں ۔۔۔ نہ کرو ناں۔۔۔۔ تو میرے کان کھڑے ہو گئے ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میں نے جس طرف سے وہ نسوانی آواز آ رہی تھی اس طرف دیکھا۔۔ تو سامنے ایک بڑی سی جھاڑی کھڑی تھی میں نے غور کیا تو اس بڑی سی جھاڑی کے آس پاس چھوٹے چھوٹے بہت سے خود رو درخت بھی اُگے ہوئے تھے ۔۔۔اور ان درختوں کی وجہ سے وہاں ایک قدرتی طور پر ایک اوٹ سی بن گئی تھی اور اسی اوٹ کے پیچھے سے وہ نسوانی آواز آ رہی تھی ۔۔ اور یہ سوچ کر کہ اس جھاڑی کے پیچھے دو جوان جسم موج مستی کر رہے ہیں ۔۔۔۔ میں ایک دم پرجوش سا ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی بڑی احتیاط سے اس جھاڑی کی طرف بڑھنا شروع ہو گیا۔۔۔ ۔۔۔ میں پھونک پھونک کر قدم اُٹھاتا ہوا وہاں تک جا پہنچا اور ۔۔۔ وہاں پہنچ کر میں ایک دم زمین پر بیٹھ گیا۔ ۔۔۔اور پھر ایک مناسب جگہ دیکھ کر وہاں پر سر اُٹھا کر دیکھنے لگا ۔۔۔۔ جھاڑی کے اس طرف کا نظارہ بہت ہی دلکش اور گرم تھا -
اس وقت میرے سامنے ایک نیم برہنہ لڑکا اور ایک نیم برہنہ لڑکی داد ِ عیش دے رہے تھے ۔۔ لڑکے کی عمر 29 تیس سال ہو گی ۔اس کا جسم کافی کسرتی تھا ۔۔۔اور اس نے اپنے کسرتی جسم پر جین کی نیلی پینٹ اور اوپر سفید شرٹ پہن رکھی تھی اور اس شرٹ کے اوپر اس نے آدھے بازوؤں کی سوئیٹر بھی پہنی ہوئی تھی اس مرد نے اتنی ٹائیٹ شرٹ پہنی ہوئی تھی کہ اس شرٹ سے اس کے بازوؤں کی مچھلیاں پھڑک رہی تھیں ۔۔۔ مرد کی پینٹ کی زپ کھلی ہوئی تھی اور اس نے اپنا لن لڑکی کے ہاتھ میں پکڑایا ہوا تھا۔۔۔ جسے وہ بڑے پیار سے آگے پیچھے کر رہی تھی۔۔۔ چونکہ دونوں کا میرے طرف سائیڈ پوز تھا اس لیئے میں اس لڑکے اور لڑکی کا چہرہ اچھی طرح سے نہ دیکھ سکتا تھا۔۔۔ ادھر پاس زمین پر لڑکی کا جہازی سائز پرس پڑا تھا اور اس پرس کے اوپر اس کی سفید رنگ کی بڑی سی چادر بھی رکھی تھی لڑکی نے اپنی قمیض پر کالے رنگ کی سؤئیٹر بھی پہنی ہوئی تھی جس کے آگے سے سارے بٹن کھلے ہوئے تھے اس کی قمیض سے اس کی بھاری چھاتیاں باہر کو نکلی ہوئیں تھیں ۔۔۔ اور ان ننگی چھاتیوں پر وہ مرد جھکا ہوا تھا اور اس کے ہاتھ میں لڑکی کے ممے تھے جسے وہ دباتا تو لڑکی ایک سیکسی سی آہ بھر کر کہتی کہ .. اُف ۔۔آہستہ میری جان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لڑکی کی چھاتیوں سے ہوتی ہوئی میری نگاہ نیچے پڑی تو میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا ۔۔۔ بات کچھ یوں تھی کہ اکڑوں بیٹھی ہوئی لڑکی نے اپنی قمیض کو مٹی سے بچانے کے لیئے اسے پیچھے سےکافی حد تک اوپر اُٹھا یا ہوا تھا جس سے اس کی گانڈ صاف نظر آرہی تھی اوپر سے غضب یہ تھا کہ قمیض کے نیچے اس لڑکی نے چوڑی دار پاجامہ پہنا ہوا تھا ۔۔ اور یہ چُست پاجامہ اس کی موٹی سی گانڈ کے بلکل ساتھ چپکا ہوا تھا۔۔کہ جس کی وجہ سے اس لڑکی کی گانڈ کا ایک ایک انگ بڑا ہی نمایاں نظر آ رہا تھا۔۔۔واہ۔۔۔ کیا شاندار گانڈ تھی ۔۔۔ اس لڑکی کی اتنی مست گانڈ دیکھ کر میں تو اس لڑکی پر بن دیکھے ہزار جان سے فدا ہو گیا۔۔۔۔ ۔۔۔ اور اتنی مست گانڈ دیکھ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فوراً ہی میرے لن نے جان پکڑنا شروع کر دی۔۔۔
جبکہ دوسری طرف صورتِ حال یہ تھی کہ وہ مرد اکڑوں بیٹھی لڑکی سے اپنا لن منہ میں لینے کو کہہ رہا تھا ۔۔۔ اور لڑکی کے انداز سے صاف نظر آرہا تھا کہ وہ بھی مرد کا لن چوسنا چاہتی ہے لیکن جیسا کہ ہماری دیسی کڑیوں کی عادت ہے کہ دل ہونے کے باوجو د بھی ۔۔ ایسی ہی جعلی نخرے کرنا ۔۔۔۔ سو وہ یہی کر رہی تھی ۔۔۔۔۔چنانچہ جب وہ لڑکا اس سے کہتا کہ پلیززززززز تھوڑا سا تو منہ میں لو ناں۔۔۔۔تو لڑکی مست اور سریلی آواز میں کہتی کہ نا بابا مجھ سے یہ گندہ کام نہیں ہو گا ۔۔۔۔ تمہارا ہاتھ میں پکڑ لیا یہ کافی نہیں ہےکیا؟؟؟؟؟۔۔۔۔ تو آگے سے وہ لڑکا کہتا ۔۔۔۔۔ جان چوسنا نہیں تو پلیزززززززز۔۔ اس پر ایک کس ہی کر دو۔۔۔۔ اس پر لڑکی بڑی ادا سے بولی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوچ لو میں جسٹ کس ہی کروں گی۔۔۔۔۔یہ کہتی ہوئے لڑکی نے ایک ادا سے اپنی گانڈ کو پیچھے سے اُٹھایا ۔۔۔۔اور اپنے منہ کو آگے کیا اور لڑکے کی طرف دیکھتے ہوئے منہ کو اس کے لن کی طرف لے گئی ۔۔۔گانڈ اوپر اٹھانے سے ۔۔۔۔۔ اس کی گانڈ کے دونوں پٹ یہاں تک کہ اس کی موٹی گانڈ کے دونوں ۔۔۔ حصوں کے درمیان کی لکیر بھی نمایاں طور پر نظر آنے لگی -اُف ایک تو لڑکی کی موٹی گانڈ ۔۔دوسرا اس موٹی گانڈ کو دو حصوں میں بانٹتی ہوئی گہری سی لکیر ۔۔۔۔ یہ سب دیکھ کر میں تو جھلا ہو گیا ۔۔۔اور اس دل کش نظارے کو مزی د نزدیک سے دیکھنے کے لیئے بے اختیار اپنی جگہ سے تھوڑا آگے کو بڑھ گیا ۔۔۔ میرے آگے بڑھنے سے زمین پر پڑے ہوئے خشک پتوں سے ایک چرچراہٹ کی سی آواز پیدا ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بد قسمتی سے اس سناٹے میں یہ آواز اس قدر تیزی کے ساتھ ابھری کہ ۔۔۔اس آواز کو سنتے ہی ۔۔۔ وہ دونوں ایک دم اپنی جگہ سے اچھلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب پوزیشن یہ بنی تھی کہ اس کی گانڈ کو نذدیک سے دیکھنے کے چکر میں ۔۔۔ میں ان کے سامنے نمایاں طور پر کھڑا نظر آ رہا تھا۔۔ ۔۔۔ ادھر جیسے ہی لڑکی نے۔۔۔۔ گردن گھما کر میری طرف ۔۔۔اور میں نے اس کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو ایک دوسرے کو دیکھ کر ۔۔۔۔ہم دونوں ہی ششدر رہ گئے۔۔۔۔ وہ ۔۔۔وہ۔۔۔ ہماری محلے دار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تھی جسے نہ صرف یہ کہ میں اچھی طرح سے جانتا تھا بلکہ ہمارے ان کے ساتھ گھریلو مراسم بھی تھے۔۔۔ مجھے دیکھ کر وہ لڑکی جس کا نام آصفہ تھا اور جسے میں آصفہ باجی کہتا تھا ۔۔۔۔۔ ایسے ہو گئی تھی کہ جیسے کاٹو تو لہو نہیں۔۔وہ بڑی ہی خوف ذدہ نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی جبکہ دوسری طرف میں ۔۔۔ بس خالی خالی نظروں سے بڑی ہی غیر یقنی حالت میں اسے گھورے جا رہا تھا۔ دراصل میرے زہن کے کسی بعید ترین گوشے میں بھی اس لڑکی کے بارے میں ایسا کوئی تصور موجود نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ اس کی فیملی کے لوگ بہت پرہیز گار اور مزہبی ٹائپ کے تھے اور خود وہ لڑکی بھی محلے سے نکلتے وقت خود کو ایک بڑی سی چادر سے ڈھکا رکھتی تھی ۔ اور محلے میں اس نے کبھی کسی کو سر اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔ اسی لیئے آصفہ باجی کو اس حالت میں دیکھ کر میں حیران پریشان ہو گیا تھا۔۔۔کیونکہ میرے لیئے ا ن کی یہ حرکت بڑی ہی غیر متوقع اور حیرت انگیز تھی۔۔ میں قسم کھا کے کہتا ہوں کہ میری جگہ ہمارے محلے کا کوئی اور لڑکا اس لڑکی کے بارے میں مجھ سے اس قسم کی بات کرتا تو ہو سکتا ہے کہ جواب میں میں اس کے دانت توڑ دیتا۔۔۔۔۔ لیکن بدقسمتی سے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے مجھے بڑا زبردست شاک لگا تھا اور میں اسی شاک کے زیرِ اثر۔۔۔میں اس کو یک ٹک دیکھے جا رہا تھا ۔۔۔۔ میرے برعکس آصفہ باجی جلد ہی صدمے سے باہر نکل آئی اور اس نے جلدی سی اپنی بھاری چھاتیوں کو قمیض کے اندر کیا اور پرس اور چادر اُٹھا کر لڑکا کا ہاتھ پکڑا ۔۔۔اور تقریباً بھاگتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔۔۔
ان کو بھاگتے دیکھ کر ۔۔۔ میں بھی شاک کی حالت سے باہر نکل آیا ۔۔۔۔اور بڑے بوجھل قدموں کے ساتھ واپس چلا گیا اور لوک ورثہ کے ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر آج کے واقعہ کے بارے میں سوچنے لگا ۔۔۔ جو کچھ میری نظروں نے دیکھا تھا ۔۔۔ میرا دل ابھی تک اسے ماننے کو تیار نہیں تھا سوچتے سوچتے خیال آیا کہ اس میں اتنا حیران ہونے کی کیا بات ہے؟؟ بے شک آصفہ باجی کا تعلق ایک مزہبی اور روایتی فیملی سے ہے ۔۔۔۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک جوان لڑکی بھی تو ہے جس کی عمر بیتی جا رہی تھی اور اس کے گھر والے ابھی تک اس کے لیئے کسی نیک اور صالع لڑکے کی تلاش میں تھے جبکہ میرے اندازے کے مطابق اس وقت آصفہ باجی کی عمر ستائیس اٹھائیس سال ہو گی ۔۔۔ یعنی کہ وہ ایک بھر پور جوان لڑکی تھی اور اگر وہ جوانی کے ہاتھوں مجبور ہوکر تھوڑا بہک گئی تھی تو اس میں اچھنبے کی کیا بات تھی؟ اس کے بھی جزبات ہوں گے اس کو بھی ہوشیاری آتی ہوگی۔۔۔ ۔۔۔۔اور ویسے بھی ۔۔ ہم کون سے ایسے فرشتہ صفت بندے تھے کہ اس کی بات کو اچھالیں؟؟؟ ۔۔خود ہمارا حال یہ تھا کہ محلہ کیا آس پاس کی کوئی بھی ڈھیلی ۔۔۔ آنٹی ہمارے لن کی دسترس سے محفوظ نہ تھی۔۔۔۔ چنانچہ یہ سوچ کر میں نے دل ہی دل میں یہ طے کر لیا کہ آصفہ باجی کے بارے میں آج میں نے جو کچھ بھی دیکھا اور سنا ہے وہ اسی ریسٹورنٹ میں دفن کر دیتا ہوں ۔۔۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد ۔۔۔ میں نے خود کو کافی ہلکا پھلکا محسوس کیا ۔۔۔۔ اس کے بعد میں وہاں سے اُٹھا اور اپنے دوستوں کی طرف چلا گیا۔۔۔۔ اور کافی دیر سے گھر پہنچا۔۔۔
جیسے ہی میں گھر میں داخل ہوا تو امی مجھ سے کہنے لگیں کہ آصفہ کافی دیر سے تمہارا پوچھ رہی تھی اور تم سے ملنے کے لیئے اس نے ہمارے گھر کے کافی چکر بھی کاٹے ہیں اور آخری دفعہ جاتے ہوئے اس نے امی کو یہ پیغام دیا تھا کہ جیسے ہی میں گھر آؤں اس کی بات ضرور سنوں ۔۔آصفہ باجی کا پیغام سن کر میں ساری بات سمجھ گیا تھا لیکن ویسے ہی مچلا بنتے ہوئے امی سے بولا۔۔۔۔ کہ امی خیریت تو ہے نا ؟ ان کو مجھ سے ایسا کیا کام پڑ گیا ہے ؟ تو امی کہنے لگی کام کا تو مجھے پتہ نہیں ۔۔۔۔۔ البتہ شکل سے وہ بے چاری کافی پریشان لگ رہی تھی ۔۔۔۔پھر کہنے لگیں بیٹا جلدی سے جا کر اس سے مل آ ۔۔۔کہ پہلے ہی وہ ہمارے گھر کے کافی چکر لگا چکی ہے۔امی کی بات سن کر میں آصفہ باجی کے گھر کی طرف چل پڑا ۔۔۔ اور جا کر ان کے گھر کی گھنٹی بجائی تو جواب میں انہوں نے ہی دروازہ کھولا ۔۔۔ اس وقت وہ خاصی پریشان اور دہشت زدہ سی لگ رہیں تھیں ۔۔ مجھے اپنے سامنے پا کر انہوں نے مجھے سیڑھیوں کی طرف جانے کا اشارہ کیا جو کہ ان کے دروازے کے ساتھ ہی بنی ہوئیں تھیں۔۔۔۔اور پھر جیسے ہی میں سیڑھیاں چڑھتا ہوا ۔۔۔۔ان کی ممٹی پر پہنچا ۔۔۔ تو پیچھے سے آواز دے کر انہوں نے مجھے وہیں رکنے کا کہا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔ اور جیسے ہی میں رکا ۔۔۔۔وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھ کر میرے سامنے آ کر کھڑی ہو گئیں۔۔۔ ۔۔ اور پھر میرے سامنے رُکتے ہی انہوں نے اپنا سر جھکا لیا اور اس کے ساتھ ہی اپنی آنکھیں پونچھنے لگیں ۔۔مجھے دیکھتے ہی وہ رونا شروع ہو گئیں تھیں انہیں روتا دیکھ کر میں بھی پریشان ہو گیا اور اسی پریشانی کے عالم میں ان سے کہا۔۔ کیا ہوا باجی ؟ میری بات سن کر انہوں نے کچھ جواب نہ دیا ۔۔۔ پھر میرے بار بار پوچھنے پر انہوں نے بس اتنا ہی کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آئی ایم سوری شاہ !!!!!!!!۔۔۔۔۔اور پھر سے رونے لگیں ۔۔۔اس پر میں نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے ان سے کہا ۔۔۔۔ سوری؟؟؟؟؟؟ پر کس بات کی؟ آپ نے ایسا کیا کیا ہے؟ جو مجھ سے سوری بول رہی ہو۔۔۔۔ تو وہ آنسو پونجھتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں سوری دوپہر والے واقعہ پر مانگ رہی ہوں ۔۔۔۔ اس پر میں نے ہنستے ہوئے بولا ۔۔۔ لو کر لو گل ۔۔۔۔اس میں سوری کی کیا بات ہے باجی ؟ ۔۔۔ بلکہ سوری تو مجھے بولنا چاہیئے کہ میں نے آپ لوگوں کے رنگ میں بھنگ ڈال دی تھی۔۔ میری بات سن کر انہوں نے ایک دم سے اپنا سر اُٹھایا اور میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگیں ؟ تت ۔۔۔تم سچ کہہ رہے ہو؟ تو میں نے ان کے سر پر ہاتھ رکھ کر بڑے ہی سنجیدہ لہجے میں کہا ۔۔۔۔۔۔آپ کی قسم ۔۔۔ میں بلکل سچ کہہ رہا ہوں !!!!۔۔۔ میری بات سن کر انہوں نے ایک بار پھر بڑی بے یقنی سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگیں ۔۔۔۔۔ تم ۔۔۔تم جو کہہ رہے ہو ۔۔۔دل سے کہہ رہے ہو ناں ۔۔۔اس پر میں نے ان سے کہا جی دل سے کہہ رہا ہوں ۔۔۔۔اور اس میں حیرانی کی کیا بات ہے؟؟ ۔۔ پھر ان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔زیادہ حیران نہ ہوں باجی ۔۔۔۔ ۔۔۔ آپ بھی میری طرح سے ایک جیتی جاگتی انسان ہو کوئی لکڑ کی مورت تو نہیں ۔۔۔اس لیئے آپ کو بھی اپنی مرضی سے زندگی گزارنے اتنا ہی حق ہے جتنا کہ کسی ا ور کو ہے۔۔۔ میری بات سن کر ان کی آنکھوں میں تشکر بھرے جزبات آ گئے اور وہ رندھی ہوئی آواز میں کہنے لگیں اگر تم اس کی بجائے کوئی اور بات کرتے تو آج میں نے خود کشی کر لینی تھی۔۔۔ اس پر میں ہنستے ہوئے کہا مریں آپ کے دشمن ۔۔۔۔بھلا اس میں خود کشی کی کیا بات تھی ؟ ۔۔۔ تو وہ ایک دم سیریس ہو کر بولیں ۔۔ تھی نا ۔۔ لیکن تم نہیں سمجھو گے ۔۔ پھر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولیں۔۔۔۔۔ وعدہ کرو کہ تم اس واقعہ کا کسی سے بھی تزکرہ نہیں کرو گے؟ تو میں نے خلوصِ دل سے کہا کہ باجی میرا آپ کے ساتھ پکا وعدہ ہے کہ آج کے بعد میں اس بات کا اپنے آپ سے بھی تزکرہ نہیں کرو ں گا میری بات سن کر انہوں نے اطمینان کی ایک گہری سانس لی ۔۔
جب وہ میری طرف سے پوری طرح مطمئن ہو گئیں ۔۔۔تو پھر میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔باجی کیا میں آپ سے ایک پوچھ سکتا ہوں نا؟ تو وہ اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوئے کہنے لگیں۔۔ ۔۔ ہاں بولو ۔۔تو میں نے ان سے کہا کہ کون تھا وہ لکی ؟؟ کم از کم ہمارے محلے کا تو ہر گز نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ تھوڑی سی ہچکچاہٹ سے بولیں اس کا نام جاوید ہے اور وہ میری پہلی محبت ہے۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ مجھ سے کہنے لگیں۔۔ ۔۔۔۔ اس کے بارے میں تمہیں باقی باتیں پھر کبھی بتاؤں گی کہ اس وقت ابا جی کے آنے کا ٹائم ہو گیا ہے ۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے مجھے جانے کا اشارہ کیا۔۔۔ ۔۔۔ چنانچہ ان کا اشارہ دیکھتے ہی میں سیدھا وہاں سے اپنے گھر آ گیا۔۔۔
پھر یوں ہوا کہ اس دن کے بعد میری ان کے ساتھ دوستی ہو گئی اور ہاں بعد میں انہوں نے میرے پوچھنے پر اپنے محبوب کے بارے میں بتلایا کہ ۔۔۔وہ ان کے کالج کے دنوں کا دوست تھا اور بقول ان کے ۔۔۔ وہ ان سے شدید محبت کرتا ہے اور ان کے ساتھ شادی کرنا چاہتا تھا۔اور اب ان کی چاہت بہت آگے تک بڑھ چکی تھی ۔ یہ ساری تفصیل پوچھنے کے بعد میں نے ان سے پوچھا تھا کہ کیا اس سے شادی کے لیئے آپ کے والدین مان جائیں گے؟ کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ اس معاملے میں خصوصاً ان کے والد بہت ہی سخت تھے ۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ کہنے لگیں ۔۔۔۔ کوشش تو یہی ہے کہ وہ لوگ مان جائیں ۔۔اور پھر کہنے لگیں اس سلسلہ میں انہوں نے اپنی خالہ کے زریعے بات چیت کا ڈول بھی ڈالا تھا ۔۔۔۔۔ لیکن تا حال کوئی خاص کامیابی نہ ہوئی تھی۔۔۔ میں اکثر ہی ان کے گھر جایا کرتا تھا لیکن اس واقعہ کے بعد تو میرا ان کے گھر اور ان کا ہمارے گھر آنا جانا کچھ زیادہ ہی گیا تھا ۔۔۔۔۔ اس کی واحد وجہ یہ تھی ۔۔۔۔۔۔۔آپ سمجھ تو گئے ہوں گے۔۔۔۔۔ اس واقعہ کے بعد وہ اپنے دل کی ساری باتیں مجھ سے شئیر کر لیتی تھیں ۔۔۔۔ اسی لیئے تھوڑے دنوں میں ہی ہماری دوستی اور بھی گہری ہو گئی تھی ۔۔ایک دن میں ان کے گھر گیا تو وہ بڑی تیار شیار ہو کر گھر سے نکلنے ہی والی تھیں ان کی تیاری دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ آج پھر جاوید سے ملنے کا پروگرام ہے لیکن محض مزہ لینے کے لیئے میں ان سے بولا ۔۔۔۔ لگتا ہے باجی آج پھر جاوید بھائی پر بجلیاں گرانے جا رہی ہو ۔۔۔ میری بات سن کر ان کے چہرے پرحیا کی ایک لالگی سی پھیل گئی اور وہ شرماتے ہوئے بولیں ۔۔۔ہاں اس نے بلایا ہے ۔۔۔اس پر میں نے شرارت بھری نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ آپ چلو میں بھی انہی درختوں کے جھنڈ کی طرف آ رہا ہوں ۔۔۔ میری بات سن کر پہلے تو وہ شرم سے لال ہو گئیں ۔۔۔۔۔ پھر انہوں نے اپنے ایک ہاتھ کا مکا بنایا اور مجھ پر تانتے ہوئے مصنوعی غصے کا اظہار کرتے سے بولیں۔۔۔ تمہاری جان نہ نکال دوں گی اگر تم وہاں نظر بھی آئے تو۔۔۔۔۔ اور ساتھ ہی مسکراتے ہوئے باہر نکل گئیں۔۔۔ جبکہ میں اندر ان کے گھر چلا گیا اور ان کی امی سے تھوڑی دیر گپ شپ لگانے کے بعد واپس آگیا۔۔۔
اگلے دن وہ ہمارے گھر آئیں تو بڑی خوش لگ رہیں تھیں انہیں خوش دیکھ کر میں نے شرارت سے کہا ۔۔۔۔ لگتا ہے کل کی ڈیٹ کافی کامیاب رہی ؟ میری بات سن کر ان کا چہرہ لال ہو گیا ۔۔۔ لیکن منہ سے کچھ نہ بولیں ۔۔۔ پھر میرے بار بار چھیڑنے پر بس اتنا ہی کہا ۔۔۔۔ چل ہٹ بدمعاش بہنوں سے ایسی باتیں نہیں پوچھتے ۔۔ ۔۔۔اور مسکرا دیں۔۔۔ ۔۔۔۔ اور پھر میرے ساتھ ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگیں۔۔
agey Next Part Me
This comment has been removed by the author.
ReplyDeleteجو لڑکیاں اور بڑی عمر کی خواتین پٹھان کے ساتھ فون پر اور حقیقت میں زندگی کی خوبصورت لمحات گزارنا چاہتی ہے وہ لازمی وٹس اپ یا مسج کریں ۔ ہم سیدھے سادھے پہاڑوں کے لوگ ہیں استعمال مت کریں بلکہ خوبصورت وقت گزاریں اپکے اور ہمارے لمحات یادگار بن جائینگے ۔ رابطہ 03019738356
ReplyDeleteجو لڑکیاں اور عورتیں سیکس کا فل مزہ رٸیل میں فون کال یا وڈیو کال اور میسج پر لینا چاہتی ہیں رابطہ کریں 03460101009
ReplyDelete